ایک دکان پر دو تین لڑکےبیٹھے تھے۔ ان کےقریب سے ایک قادیانی گزرا۔ انھوں نےاسے سنانے کے لئےمرزا کودو تین گالیاں نکال دیں۔
یہ واقعہ اوکاڑہ شہرکا اورپاکستان بننے سےپہلےکا ہے۔ اس وقت انگریزحکومت
قادیانیوں کا پوراپوراساتھ دیتی تھی۔ اس قادیانی نے مسلمان لڑکوں کے خلاٖف
عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا۔ اس پر اوکاڑہ کے مسلمانوں نے مجلس احرار
لاہور کے دفتر کو خط لکھ کر ساری صورتحال بتائی اور درخواست کی کہ ان کی
مددکے لیےدفتر سے کسی کو بھیجا جائے۔جو عدالت میں ہماری مدد کر سکے۔
حضرت عطا اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا محمد حیات رحمتہ اللہ علیہ کو حکم دیا۔ آپ اوکاڑہ
چلےجائیں اور اس کیس کی پیروی کریں۔ مولانا حیات اوکاڑہ پہنچ گئے۔ دوستوں سے
ملاقات کی اور سارے کیس کا مطالعہ کیا۔ پھر ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں۔اسے
کتابیں دکھائیں حوالے دکھائےاور یہ بھی بتایا کہ مرزا نے مسلمانوں کو کیا
کیا گالیاں دی ہیں۔
مقررہ تاریخ کو عدالت لوگوں سے کھچاکھچ بھر گئی۔ سب لوگ مقدمے کی کاروائی کو
سننا چاہتے تھے۔ مولاناحیات رحمتہ اللہ علیہ صاحب نے وکیل کی جو تیاری کروائی تھی ۔ وہ سب
یونہی رہ گئی۔ وکیل اس بات کی طرف آیا ہی نہیں،بلکہ اس نے عدالت میں اس قادیانی سے
یہ سوال کیا۔
"آپ بتائیں!ان لوگوں نے مرزا کو کون سی گالی دی ہے؟"
قادیانی کو یہ سن کر سکتہ ہوگیاکہ وکیل نے یہ کیا سوال کردیا اور مجسٹریٹ
منہ پر رومال رکھ کر مسکرانے لگا کہ وکیل نے کیا خوب سوال کیا ھے۔آخر کافی دیر خاموش رہنے کے بعد تنگ
آکر مرزائی نے کہا۔
مجھے یاد نہیں کہ کونسی گالی نکالی تھی۔ اس پر وکیل نے کہا: "کوئی بات نہیں ،میں گالیاں نکالتا ہوں،آپ سنتے جائیں،جب وہ گالی آئے تو مجھےبتادیں"
وکیل نے ایک ہی سانس میں مرزائی کو کئی گالیاں نکال دیں،پھر اس نے قادیانی
سے پوچھا: "کیا ان گالیوں میں وہ گالی آئی ہے، جو ان لڑکوں نے نکالی ہے؟"
قادیانی نے پھر کہا : مجھے یاد نہیں۔
اس پر وکیل نے کہا: "تو پھر اور گالیاں سنو" اس مرتبہ وکیل نے پوری 51 گالیاں
نکال دیں۔ مجسٹریٹ اور تمام حضرات بری طرح ہنس رہے تھے۔ بس مرزائی ساکت کھڑا
تھا۔ اس کا رنگ فق تھا۔ اب پھر وکیل نے کہا: "ان میں سے کوئی گالی آئی ہے؟"
اس نے پھر کہا: "مجھے یاد نہیں" اب وکیل نے کہا: "میں اور گالیاں یاد کر کے
آؤں گا آپ کل کی تا ریخ دےدیں اسے بھی شاید کل تک وہ گالی یاد آجائے"۔
دوسرے دن جب وکیل اور مسلمان عدالت میں پہنچے تو قادیانی وہاں موجود نہ تھا۔ مجسٹریٹ نے مسلمانوں کو بتایا کہ "وہ کل ہی درخواست دے گیا تھا کہ ہم اپنا کیس واپس لیتے ہیں"۔ اس طرح مسلمان وہ کیس جیت گئے۔